Posts

Showing posts from 2019

قطعِ تعلّق

قطعِ تعلّق خُدا نے قرآنِ مجید میں قطعِ تعلّق سے منع فرمایا ہے۔ کہ لوگوں سے رشتہ مت توڑو۔ لیکن کیا رویّہ بدلنا قطعِ تعلق میں آتا ہے یا نہیں ؟ اُن لوگوں سے کون پوچھےگا جو اچھے خاصے رِشتوں سے رویّے بدل لیتے ہیں۔ اگر کسی کے رویّے میں اِس قدر تبدیلی آ  جاۓ کہ رشتہ پہلے سا نہ رہے تو ایسے رشتوں کو ختم کرنے کو قطعِ تعلق کٙہیں گے؟ کیا اس قطعِ تعلق پہ گُناہ ہو گا ؟ یا پھر خود کی بہتری کے لئے کِئے گٙئے گُناہ، گُناہ نہیں ہوتے ؟

میری دنیا

" میری دنیا " محمّد حسین کبھی فُرصت کے جو لمحے ملیں میں اِک دُنیا میں جاتا ہوں جو دنیا میری اپنی ہے جو دنیا میری سوچ کی ہے اس دنیا میں صِرف میں ہی نہیں میرا ماضی، میرے سٙپنے ہیں کچھ وعدے ہیں، کچھ رٙسمیں ہیں کچھ گیت، اشعار اور نظمیں ہیں ہوتی ہیں وہاں کچھ یادیں بھی کچھ بہت حسیں سی باتیں بھی ہیں دُھندلے دُھندلے ساۓ بھی کچھ پھول بہت مُرجھائے بھی ہیں سوکھے پتے بِکھرے بھی کچھ آدھے ادھورے مصرعے بھی وہ مصرعے جو پورے کرنے ہیں پتے جمع جو کرنے ہیں پھولوں میں رنگ ابھی بھرنا ہے سایُوں کا پیچھا کرنا ہے باتوں پہ پھر سے غور کر کے یادوں پہ ابھی مجھے ہٙسنا ہے نظمیں اور اشعار ابھی کہنے ہیں ابھی گیت بہت گنگنانے ہیں رسمیں ہیں نبھانی اور وعدے بھی سپنوں کے ہیں ابھی اور ارادے بھی ماضی سے بہت کچھ سیکھنا ہے مجھے پِھر سے پلوں کو جینا ہے یہ ہے میری دنیا اپنی جو یہ ہیں فُرصت کے سب لمحے جو مجھے اِس دنیا میں جینا ہے مجھے اِسی دنیا میں رِہنا ہے

رُسوا رہتا ہوں

رُسوا رہتا ہوں Hussain کبھی جو سٙچ کہوں تو رُسوا رہتا ہوں تو میں جھوٹ کہہ کے چُھپا رہتا ہوں مجبوریاں، تنہائیاں، رسوائیاں یہ میں کِن مصائب سے گِھرا رہتا ہوں ؟  ہے شوقِ تنہائی یا آزمائش ہے میری  کہ میں اکثر ہی جُدا جُدا رہتا ہوں اپنے آپ میں ہی مٙست و مگن رہ کر اٙوروں کے میں آلام سے بچا رہتا ہوں کِسی سوچ میں ڈوب کر پھر غرق ہونا میں اِسی مرض میں باخُدا رہتا ہوں

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

مجھے اب ڈر نہیں لگتا   ~محمد حسین~    بچپن سے سُنتے آئے ہیں  کہ انسان بھی ہم کو ڈٙستے ہیں  کب مانتے تھے اِس بات کو ہم  کہ انسان تو فٙقط ہستے ہیں  مسکراتے ہیں،ہساتے ہیں  مگر اب مان گیا ہوں میں حقیقت جان گیا ہوں میں  کہ اِن جِنّوں اور ازدہوں سے  مجھے اب ڈر نہیں لگتا  نہیں خطرہ مجھے اُن سے  کہ اب لوگوں سے ڈرتا ہوں  کہیں یہ ڈٙس ہی نا جائیں  کہیں دھوکہ نا دے جائیں  یہ بے وفا نا ہو جائیں  کہ اب حیوانوں کے سبھی کام  ہم لوگوں نے پکڑے ہیں  اب ہمیں ہم ہی سے خطرے ہیں

دن زِندگی کے میرے، آج ہو ختم گئے

دن زِندگی کے میرے، آج ہو ختم گئے  ~ محمد حسین~  جینے کے آج میرے، سارے وِہم گئے جو جان تھوڑی باقی تھی، آج اُس سے ہم گئے جو مجھ پہ مُسلّط تھے بڑی دیر سے ہوۓ سانسوں کے ساتھ میری، سارے سِتم گئے جو لوگ میرے حال سے واقِف تھے سٙدا سے آج میں جو چل دیا، ان کے بھرم گئے یُوں جِس طرح سے رُخصت میں ہو رہا ہوں آج میری ذات سے وابٙستہ، سارے وہ خٙم گئے بے گھر پڑا ہوا تھا میں اس وٙبال میں دن زِندگی کے میرے، آج ہو ختم گئے